تحریر : مولانا سید علی ہاشم عابدی
حوزہ نیوز ایجنسی| خاتم الانبیاء و المرسلین حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی مظلومانہ شہادت کے بعد 28 صفر المظفر سن 11 ہجری سے دور امامت کا آغاز ہوا، اگرچہ امام اول مظلوم اول امیر المؤمنین امام علی علیہ السلام کو حکومت و خلافت سے محروم رکھا گیا، لیکن قہر و غلبہ کے ذریعے حکومت حاصل کرنے والے تمام غاصبین اس بات کو اچھی طرح جانتے تھے کہ وہ لوگوں کے جسموں پر تو حکومت کر سکتے ہیں، مگر لوگوں کے دلوں پر حکومت کرنا ان کے بس کی بات نہیں، وہ زبردستی لباس خلافت کو کھینچ تان کر تو پہن سکتے ہیں، لیکن آبروئے خلافت کا تحفظ ان کے بس میں نہیں، وہ خود کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خلیفہ کہلوا سکتے ہیں، لیکن علم رسالت اور میراث نبوت ان کے پاس نہیں۔ ظاہر ہے جن کو اللہ نے علم لدنی عطا کیا ہو ان سے کسی جاہل کا مقابلہ ایسے ہی ہے جیسے عدم وجود سے مقابلے کی کوشش کرے، لہٰذا جب بھی اسلام پر وقت پڑا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حقیقی جانشینوں اور وارثوں نے اسلام کے دفاع میں کبھی بھی کسی طرح کی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔
اگرچہ ان ہی نام نہاد مسلمانوں اور غاصبوں نے یکے بعد دیگرے آئمہ علیہم السّلام کو شہید کیا، کسی کو تیغ جفا سے شہید کیا تو کسی کو زہر دغا سے شہید کیا۔
آخر 8 ربیع الاول سن 260 ہجری کو گیارہویں امام حضرت ابو محمد امام حسن عسکری علیہ السلام کو بھی شہید کر دیا گیا۔ ارادہ الٰہی تھا کہ ختم نبوت کے بعد سلسلہ امامت قیامت سے متصل ہو جائے، لہٰذا جب یکے بعد دیگرے آئمہ معصومین علیہم السلام کو شہید کیا گیا تو آخری امامؑ کو اللہ نے حکم غیبت عطا کیا تاکہ وہ لوگوں کی نظروں سے غائب رہیں اور یہ سلسلہ امامت قیامت سے متصل ہو جائے۔
امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت کے بعد آپؑ کے فرزند ارجمند منجی عالم بشریت، قطب عالم امکان، لنگر زمین و زمان حضرت صاحب الزمان امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف و صلوات اللہ وسلامہ علیہ و علی آبائہ الطاہرین کے دور امامت کا آغاز ہوا۔
مشکل ایک جانب سے نہیں تھی، پریشانی صرف ایک جہت سے نہیں تھی، جہاں اسلام دشمن طاقتیں یہود و نصاری آپ ؑکے دشمن تھے وہیں نام نہاد اسلامی حکمراں بھی آپ ؑکے خون کے پیاسے تھے۔ صرف حکومت ہی نہیں بلکہ تمام گروہ ضالہ آپؑ کی جان کے درپے تھے، صرف باہر ہی والے دشمن نہ تھے بلکہ گھر کے اندر سے بھی دشمنی میں کوئی کسر باقی نہ تھی۔ لہذا امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف کی امامت کے مقابلہ میں امامت کا دعویٰ کیا گیا۔
امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت کے بعد امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی امامت کے ساتھ ساتھ غیبت صغری کا دور بھی شروع ہوا لیکن بعض مواقع پر امام عالی مقام نے حسب ضرورت خود کو ظاہر کیا۔
امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت کے بعد حکومت نے چاہا کہ اپنے کسی آدمی کے ذریعہ آپؑ کی نماز جنازہ پڑھوا دیں تاکہ سلسلہ امامت کے خاتمہ کا اعلان ہو جائے اور لوگ بنی عباس کو امام ؑکا وارث سمجھیں۔ لیکن جیسے ہی غیر نماز جنازہ کی امامت کے لئے آگے بڑھا اسی وقت امام زمانہ عجل اللہ فرجہ شریف کہ جن کی عمر اس وقت محض پانچ برس تھی آگے آئے اور نماز پڑھائی۔ ماحول پر فاتح خیبر کے فرزند کی آمد کا ایسا رعب طاری تھا کہ کوئی کچھ نہ کہہ سکا اور آپؑ نماز کے بعد لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو گئے۔
اسی طرح میراث کے سلسلہ میں جب جعفر نے اعتراض کیا یا آپؑ کی جدہ ماجدہ یعنی امام حسن عسکری علیہ السلام کی والدہ گرامی جناب سوسن سلام اللہ علیہا کی وفات کے بعد گھر میں ان کی تدفین سے مانع ہوا تو آپؑ ظاہر ہوئے اور رکاوٹوں کو برطرف کیا۔
امام جعفر صادق علیہ السلام کی روایت جو شیعوں تک پہنچی ہے اس کے مطابق آپؑ نے امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی غیبت کو دو حصوں میں تقسیم فرمایا، ایک غیبت صغریٰ ہے اور دوسرے غیبت کبریٰ۔
غیبت صغری 8 ربیع الاول سن 260 ہجری سے شروع ہوئی اور 15 شعبان المعظم سن 329 ہجری کو اختتام پذیر ہو گئی۔
واضح رہے کہ ائمہ ہدیٰ علیہم السلام میں سے ہر ایک نے حسب امکان لوگوں کی عصر غیبت و انتظار کی تربیت فرمائی تھی۔ مسعودی نے اثبات الوصیہ میں روایت نقل کی کہ امام علی نقی علیہ السلام کی شہادت کے بعد منصب امامت کے ذمہ دار امام حسن عسکری علیہ السلام ہوئے تو آپؑ اپنے شیعوں اور دیگر لوگوں سے پشت پردہ سے گفتگو فرماتے تھے۔
غیبت صغری میں امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے یکے بعد دیگرے چار خاص نائب ہوئے۔ جناب عثمان بن سعید رضوان اللہ تعالٰی علیہ، جناب محمد بن عثمان رضوان اللہ تعالٰی علیہ، جناب حسین بن روح نوبختی رضوان اللہ تعالٰی علیہ اور جناب محمد بن علی سمری رضوان اللہ تعالٰی علیہ۔ 15 شعبان المعظم سن 329 ہجری کو آخری خاص نائب جناب محمد بن علی سمری رضوان اللہ تعالٰی علیہ کی وفات ہوئی اور غیبت کبریٰ کا آغاز ہو گیا جو ابھی تک جاری ہے اور ان شاءاللہ جب تک امام علیہ السلام کا ظہور نہیں ہوگا غیبت کبری کا سلسلہ جاری رہے گا۔
علماء نے غیبت کے متعدد اسباب بیان کئے ہیں جن میں سے 2 مندرجہ ذیل ہیں:
1. قتل۔ جیسا کہ شیخ صدوق رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب کمال الدین و تمام النعمہ میں جناب زرارہ بن اعین رضوان اللہ تعالی علیہ سے روایت نقل کی ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: اس جوان کی قیامت سے پہلے غیبت ہوگی، عرض کیا: ان کی غیبت کا سبب کیا ہے؟ فرمایا :تاکہ قتل نہ ہوں۔
2. شیعوں کی آزمائش: امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی غیبت کے دلائل میں سے ایک یہ بھی ہے کہ شیعوں کی آزمائش ہو تاکہ خالص شیعہ غیر خالص سے الگ ہو سکیں۔ جناب جابر جعفی ؒسے روایت ہے کہ امام محمد باقر علیہ السلام سے عرض کیا: فرج (ظہور) کب ہوگا؟ فرمایا: فرج نہیں ہوگا مگر یہ کہ تمہاری آزمائش ہو جائے، پھر تمہاری آزمائش ہو جائے، پھر تمہاری آزمائش ہو جائے۔ (اس جملے کو تین مرتبہ فرمایا) یہاں تک کہ آلودگی برطرف ہو جائے اور پاکیزگی رہ جائے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ عصر غیبت میں شیعوں کی کیا ذمہ داریاں ہیں؟
روایات میں متعدد ذمہ داریاں بیان ہوئی ہیں جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں۔ تقیہ، دعائے غریق پڑھنا، زیادہ سے زیادہ ظہور کی دعا کرنا، انتظار فرج وغیرہ۔
البتہ عصر غیبت میں ہم منتظرین امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے پیش نظر رہے کہ ہمارے مولا و آقا اور امام شہدائے کربلا کے خون کا انتقام لیں گے۔ یعنی ان کا معرکہ، معرکہ کربلا جیسا ہوگا۔ جب وارث حسین علیہ السلام ظہور فرمائیں گے تو اپنے جد مظلوم امام حسین علیہ السلام کے خون کا بدلہ لیں گے تو ان کے لشکر میں شامل ہونے والوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ بھی ویسے ہی ہوں جیسے اصحاب امام حسین علیہ السلام تھے کہ جن کے بارے میں امام حسین علیہ السلام نے فرمایا تھا: جیسے باوفا اور نیک اصحاب میرے ہیں ویسے کسی کے نہیں۔یا اپنی بہن یعنی شریکۃ الحسین حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا سے فرمایا: "میرے اصحاب موت سے اسی طرح مانوس ہیں جیسے شیر خوار بچہ اپنی ماں کے سینہ سے مانوس ہوتا ہے۔"
لہٰذا منتظرین امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی اہم ذمہ داری ہے کہ وہ شہیدانِ کربلا علیہم السّلام کی معرفت حاصل کریں اور ان کی تأسی کریں تاکہ وارث حسین علیہ السلام کے لشکر میں شامل ہو سکیں۔
خدایا: ہمیں اپنی، اپنے رسول اور اپنی حجت کی معرفت عطا فرما۔